Saturday, November 7, 2015

13نومبر یوم شہدائے بلوچستان کے موقع پر شہداء کے سوچ و فکر اور قربانی کے جزبہ کو اجاگر کرکے ریاست کو بتادیں کہ بلوچ قوم بیش بہا قربانیوں کے جاری تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ بلوچستان انڈیپینڈنس موومنٹ

نومبر 13یوم شہدائے بلوچستان کے موقع پر شہداء کے  سوچ و فکر اور قربانی کے جزبہ کو اجاگر کرکے ریاست کو بتادیں کہ بلوچ قوم بیش بہا قربانیوں کے جاری تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔
بلوچستان انڈیپینڈنس موومنٹ
گئے مرکزی ترجمان میں کہاہے کہ بلوچ عوام 13نومبر یوم شہدائے بلوچستان کوتجدید عہد کے ساتھ مناتے ہوئے بلوچ سالویشن فرنٹ کے شٹر ڈاؤن ہڑتال کے اپیل پر لبیک کرتے ہوئے بلوچستان گیر شٹرڈاؤن ہڑتال کو کامیاب بناکر ریاست کو پیغام دین کہ بلوچ اپنے شہداء کے جدوجہد کا حاصل وصول صرف اور صرف آز اد بلوچ ریاست کے قیام کو سمجھتے ہیں اس کے علاوہ آزادی سے کم کسی بھی مطالبہ کو شہداء کے جدوجہد کے نفی سمجھتے ہیں ترجمان نے کہاکہ بلوچ اپنی جدوجہد کے زریعہ کم مدت میں سفارتی جنگ کو جیت کر ریاست کے لئے بین الاقوامی سطح پر کافی مشکلات پیدا کی ہے جدوجہد کو اس مقام تک پہنچانے میں بلوچ شہداء اور جہد کاروں کی انتھک محنت اور کوششیں شامل ہیں ہمیں اپنے تمام فور مز کو متحرک کرکے آزادی کے اصولی موقف کے حوالہ سے آگائی اور موبلائزیشن کے سلسلہ میں تیزی لانے چاہیے13نومبرشہداء کے مشترکہ برسی پر بلوچ جہد آزادی کے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ ان کے سوچ و فکر اور قربانی کے جزبہ کو اجاگر کرکے دنیا کو بتادیں کہ بلوچ قوم اپنی آزادی کے لئے بیش بہا قربانیوں کے اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی منزل حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کے قیمت دینے کے لئے تیار ہیں
لیکن اپنی آزادی پر سمجھوتہ کے لئے تیار نہیں جس طرح کے شہداء نے اس راستہ میں کسی بھی قسم کے مصلحت اور سمجھوتہ سے بالاتر رہ کر اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیا ان کے جدوجہد کسی قسم کے انفراسٹکچر یا مراعات کے لئے نہیں بلکہ بلوچ قوم کی آزادی بقاء اور شناخت کے لئے تھا ترجمان نے بولان میں جاری ریاستی جارحیت کے مذمت کرتے ہوئے کہ ریاست بلوچ جدوجہد سے نفسیاتی اور فزیکلی شکست کا سامنا کررہاہے اس لئے ان کے جارحانہ کاروائیوں میں شدت آرہی ہے آئے روز بلوچ فرزندوں کا اغواء اور شہادتیں معمولی بنادی گئی ہیں بولان میں گزشتہ کئی دنوں سے بڑے پیمانے کے تبائی اسی سلسلہ کی کڑی ہے عام شہری آبادیوں پر یلغار گھرون کو جلانا مال املاک کی تبائی یہ روز کا معمول بن چکاہے اور بلوچستان بھر میں یہ سلسلہ تیزی کے ساتھ جاری ہے ریاست بڑی ڈھٹائی سے اس جنگ کو طول کودیکر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کے خلاف ورزیان کررہاہے عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بلوچ نسل کشی کے خلاف بلوچ قوم کی آواز بنیں اور بلوچ قوم کی سفارتی مدد کریں ترجمان نے کہاکہ یہ ریاست کے غلط فہمی ہے کہ وہ اس طرح کے جارحیت سے بلوچ قومی جدوجہد کے طوفان کو روک سکے گا آج بلوچ عوام میں شعور و آگائی کا سطح بلند ہے نوے فیصد بلوچ عوام اپنی آزادی کے ساتھ کھڑے ہیں بلوچ دانشور ادیب اور تمام مکاتب فکر آزادی کے حصول کے لئے اپنے اپنے فورمز پر متحرک ہوکر اپنی صلاحیتوں کو آزادی کے حق میں استعمال کررہے ہیں ضروت اس امر کی ہے کہ بلوچ دوست جہدکار اپنی کوششوں مین مزید تیزی اور جہد لاکر ریاستی مظالم کو آشکار کرکے عالمی سطح پر قومی آزادی کی جدوجہد کے لئے ہمدردی اور خیر سگالی پیدا کرکے عالمی رائے کو اپنی حق میں ہموار کریں

قوم پرستي پنهنجي جوهر ۾ ترقي پسندي ئي آهي ۽ ڪو به سچو قوم پرست ۽ ترقي پسند نسل پرست يا شائونسٽ نٿو ٿي سگهي.

پنجاب جا سول لباس وارا ۽ وردي پوش حڪمران جڏهن مظلوم سنڌي ۽ بلوچ قومن جي اندر سندن ئي قوم جي
وڏيرن ۽ سردارن جي روپ ۾ پنهنجا دوست ۽ اتحادي تلاش ڪري سگهن ٿا ته سنڌيئن ۽ بلوچن کي به پنهنجي ئي قومي مفاد خاطر ئي صحيح ،انتهائي وسيع دلي، انتهائي ڏاهپ،سهپ ۽ بردباريءَ سان پنجاب ۽ پختونستان جي مسڪين ماڻهن ۽ زنده ضمير انسانن ۾ پنهنجا دوست ۽ اتحادي تلاش ڪرڻا پوندا.
قوم پرستي پنهنجي جوهر ۾ ترقي پسندي ئي آهي ۽ ڪو به سچو قوم پرست ۽ ترقي پسند نسل پرست يا شائونسٽ نٿو ٿي سگهي.ڪا به قوم سڄي جوسڄي سٺي يا مڪمل طور خراب نه ٿيندي آهي.پنجاب ۽ پشتونستان ۾ ٿورا ئي سهي پر اهل ضمير انسان سنڌيئن ۽ بلوچن جي حق خوداراديت جا حامي آهن انهن کي پنهنجو ساٿي ۽ اتحادي بنائڻ ئي ڏاهپ ۽ عقلمندي ٿيندي.
مان جنوبي پنجاب سان تعلق رکندي به سنڌيئن ۽ بلوچن جي جدوجهد ۾ سندن مڪمل طور سهڪاري آهيان.

( جڳ مشهور ڪتاب ”مليٽري ان ڪارپوريٽ ”جي ليکڪا، محترمه عائشه صديقه جنهن پنهنجي ڪتاب ۾ پاڪستاني خاڪي وردي وارن جو اصل ڀيانڪ روپ ڏيکاري کين سڄي جڳ جهان ۾ الف اگهاڙو ڪيو،جنهن جي پاداش ۾ جلاوطن بنائي ويئي،ورلڊ سنڌي ڪانگريس جي سنڌ ڪانفرنس لنڊن ۾ مهمان مقرر طور سنڌ ۽ بلوچستان جي قومي تحريڪ سان مخاطب ٿيندي هڪ نئون رستو ڏيکارڻ جي ڪوشش ڪري ٿي.

‘I’m a feminist,’ Malala tells Emma Watson

Malala, the Pakistani schoolgirl who won the Nobel Peace Prize for her work campaigning for education after she survived being shot by the Taliban, has spoken to Emma Watson about feminism, her father and her fight for girls’ rights.
In an interview for the opening of the into film festival My father set an example to all parents, to all men, that if we want equality, if we want equal rights for women, then men have to step forwards … We all have to walk together; that’s how change will come. This is the role my father has taken. He believes in women’s rights, he believes in equality and he calls himself a feminist.
Malala, who now lives in Britain after recovering from a gun attack in 2012, then described how Watson’s speech to the UN on gender had prompted her to reconsider the word feminist.
It’s interesting that this word feminism, it has been a very tricky word: when I heard it the first time I heard some negative responses, some positive responses, and I hesitated in saying, am I a feminist or not? After hearing your speech – “If not now, when? If not me, who?” – I decided there is nothing wrong with calling yourself a feminist. So I am a feminist and you all should be feminists because feminism is another word for equality.
In the interview, Malala also disputed the idea that educating women was a Western ideal that was at odds with her religion, Islam.
People have misinterpreted the religion. For me it is a religion of peace for the good of all humanity. Live a better life and be kind. Why is it so hard to love one another?
The campaigner spoke of the need to ensure that 66 million girls around the world who are currently missing out on school were able to access an education:
If you are stopping half the population from coming forwards, how can you think of progress and achievement?
Writing about the interview on her Facebook  Emma Watson said:
Perhaps the most moving moment of today for me was when Malala addressed the issue of feminism. To give you some background, I had initially planned to ask Malala whether or not she was a feminist, but then researched to see whether she had used this word to describe herself. Having seen that she hadn’t, I decided to take the question out before the day of our interview. To my utter shock Malala put the question back into one of her own answers and identified herself. Maybe feminist isn’t the easiest word to use … But she did it ANYWAY. You can probably see in the interview how I felt about this. She also gave me time at the end of the Q&A to speak about some of my own work, which she most certainly didn’t need to do, I was there to interview her. I think this gesture is so emblematic of what Malala and I went on to discuss. I’ve spoken before on what a controversial word feminism is currently. More recently, I am learning what a factionalized movement it is, too. We are all moving towards the same goal. Let’s not make it scary to say you’re a feminist. I want to make it a welcoming and inclusive movement. Let’s join our hands and move together so we can make real change. Malala and I are pretty serious about it but we need you.



Iran : Irani Forces Fired Killed 3 innocent Baloch in Ganj Kalat Area Of Western Balochistan And Abducted 2 More innocent Baloch.

Iran : Irani  Forces Fired Killed 3 innocent Baloch in Ganj Kalat Area Of Western Balochistan And Abducted 2 More innocent Baloch.



میں ایوارڑ کیوں واپس کررہی ہوں – ارون دھتی رائے

میں ایوارڑ کیوں واپس کررہی ہوں – ارون دھتی رائے
گاڈ آف سمال تھنگز کی مصنفہ اور اپنے کاٹ دار مضامین سے انسانی ضمیر کو کچوکے دیکر جگانے نے 1989ء میں بھارت کی جانب سے ملا ” بیسٹ سکرین پلے رائٹر نیشنل ایوارڈ ” واپس کرڈالا ہے اور انہوں نے صرف ایوارڑ ہی واپس نہیں کیا بلکہ اس مرتبہ ایک ایسی تحریر بھی اس ایوارڑ واپسی کی اطلاع فراہم کرتے ہوئے لکھی ہے جو ” بھارت میں چل رہے ہندؤتوا کے تماشے ” پر کاری ضرب بھی ہے اور یہ پوری دنیا کے ادیبوں اور دانشوروں کو ویک اپ کال بھی ہے ، میں یہاں پر انڈین ایکسپریس میں شایع ہونے والے ان کے خط کے متن کا ترجمہ دے رہا ہوں ، انگریزی میں جو متن ہے وہ بہت کمال کا ہے اور اس اسلوب کو ترجمے میں ڈھال نہ پانے پر احباب سے پیشگی معذرت بھی کرتا ہوں
میں اگرچہ اعزازات کو جو کام ہم کرتے ہیں ان کو ماپنے کا آلہ خیال نہیں کرتی لیکن پھر بھی میں پہلے سے واپس کردہ اعزازات کے زخیرے میں اپنے آپ کو ملے نیشنل بیسٹ سکرین پلے رائٹر ایوارڑ کو واپس کرکے اضافہ کرنا چاہتی ہوں یہ اعزاز میں نے 1989ء مین حاصل کیا تھا
میں یہ بھی واضح کرنا چاہتی ہوں کہ یہ اعزاز میں اس لئے واپس نہیں کررہی کہ جسے حکومت کی جانب سے ” بڑھاوا دئے جانے والی عدم برداشت ” کہا جارہا ہے ، میں اس کو دیکھ کر ” سکتے ” میں ہوں – میں سکتے میں ایک تو اس وجہ سے نہیں ہوں کہ یہ ” عدم برداشت ” جو لفظ ہے نا یہ انسانوں کو زندہ جلائے جانے ، گولی مارنے ، جلانے اور قتل عام کرنے کی تشریح کے لئے غلط استعمال کیا جارہا ہے – دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ پیشگی ہمارے نوٹس میں ہے – تو جو کچھ اس حکومت کے بھاری اکثریت سے ووٹ لیکر تشکیل کے بعد سے ہوا ، اسے دیکھکر صدمے یا سکتے کا شکار نہیں ہوں اور تیسری وجہ مرے شاک میں نہ ہونے کی یہ ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ جو خوفناک ، ڈرؤانے قتل ہیں یہ ایک گہرے بغض کی محض علامت ہیں
زندگی جینے والوں کے لئے جیون ایک جہنم سے کم نہیں ہے – ساری آبادی جن میں لاکھوں دلت ، مسیحی ، مسلمان شامل ہیں دھشت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کب اور کہاں سے ان پر حملہ ہوجائے گا
ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ٹھگ اور نیو آڈر کے کارندے جب ” غیرقانونی سلاٹر ” کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ایک جیتا جاگتا انسان نہیں ہوتا جسے زبح کردیا گیا ہو بلکہ وہ ایک تصوراتی گائے مراد لیتے ہیں جسے مارڈالا گیا ہو –جب وہ فارنزک شواہد کے معانئے کی بات کرتے ہيں تو اس سے ان کی مراد فریچ میں پڑے کھانے کا معائنہ ہوتا ہے نہ اس انسان کا جسے جلاکر ماردیا گیا ہو
ہم کہتے ہیں کہ ہم نے “ترقی ” کرلی ہے لیکن جب دلت زبح کیا جاتا ہے اور اس کے بچے زندہ جلادئے جاتے ہیں تو کون سا ادیب ہے آج آزادی سے وہ کہے جو بابا صاحب امبیدکر نے کہا تھا کہ
ہندؤ ازم اچھوتوں کے لئے ایک متغیر دھشت کا چیمبر ہے
اور اس طرح کہنے سے اس ادیب کو نہ تو ذبح ہونا پڑے ، نہ اس کو گولی لگے اور نہ وہ جیل جائے
کون سا ادیب ہے جو سعادت حسن منٹو کی طرح وہ لکھ سکے جو اس نے ” انکل سام کے نام خطوط ” میں لکھا تھا ( اور اس پر حملہ نہ ہو )
والی دانشور ارون دھتی رائے
یہاں جو کہا جارہا ہے اس سے اتفاق کرنۓ یا نہ کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ اگر ہمیں آزادی سے بات کرنے کا حق نہیں ہے تو ہم ایسے معاشرے میں بدل جائیں گے جو ” دانشوروں کے قحط ” ( انٹلیکچوئل میل نیوٹریشن ) کا شکار ہوگا اور احمقوں کی قوم پر مشتمل ہوگا – پورے برصغیر میں سماج کو ایسے ہی معاشرے میں بدلنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور ہندوستان بھی پورے جوش کے ساتھ اس میں شریک ہوچکا ہے – یہاں ” سنسر شپ ” بلوائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے
میں اس بات پر خوش ہوں کہ مرے پاس ایک قومی ایوارڈ تھا جسے میں واپس کرسکتی ہوں کیونکہ یہ مجھے لکھاریوں ، فلم سازوں اور اساتذہ کی طرف سے شروع کی گئی اس تحریک کا حصّہ بناسکتا ہے جو کہ ہماری اجتماعی دانش نظریاتی سفاکیت کے ساتھ ہونے والے حملے کے خلاف شروع کی گئی ہے – یہ حملہ ہمیں ٹکڑوں مین بانٹ اور پاتال میں دفن کردے گا اگر ہم اس کے خلاف اب اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو
مرا یقین ہے کہ آرٹسٹ اور لکھاری اب جو کررہے ہیں وہ پہلے نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا تاريح میں کوئی مماثل ہے ، یہ دوسرے زریعے سے سیاست ہے اور مجھے اس کا حصّہ ہونے پر فخر ہے جبکہ اس ملک میں جو ہورہا ہے اس پر شرمندگی ہے
پس نوشت :ریکارڈ کے لئے میں بتاتی چلوں کہ میں نے ساہیتہ اکیڈیمی ایوارڈ دو ہزار پانچ میں اس وقت واپس کردیا تھا جب کانگریس حکومت میں تھی تو براہ مہربانی مجھے ” کانگریس بمقابلہ بے جے پی ” جیسی فرسودہ بحث کا حصّہ نہ بنایا جائے ، بات اسے کہیں آگے چلی گئی ہے ، شکریہ

Pakistani soldier shooted un arm person is clear evidence of the War Crimes being committed by the Pakistan Army in Occupied Balochistan.

 Pakistani soldier shooted un arm person  is clear evidence of the War Crimes being committed by the Pakistan Army in Occupied Balochistan.

Shame on these Kind of People they have not respect for women , these kind of things threat for entire world.they should stopped.

 Shame on these Kind of People they have not respect for women , these kind of things threat for entire world.they should stopped.

Mostly in Muslim religious culture they people through stones on female why not male who also committed things this is terrible for human being ,We should learn to respect women, and respect human being.

ISIL and the Taliban: The filmmaker who risked it all

I was shocked to see the next generation of my country like this. Instead of learning something good, they are learning how to kill people…It was heartbreaking for me."


In this week's webisode of The reVIEW, we talk to the filmmaker who risked his life investigating the rise of #ISIL in Afghanistan, and Al Jazeera English's Seoul-based correspondent Harry Fawcett about the channel's East Asia coverage.

The Silence of United Nations over a Burning Balochistan

The Silence of United Nations over a Burning Balochistan Written by: Dr Mannan Baloch, Secretary General Baloch National Movement (BNM). 




The Silence of United Nations over a Burning Balochistan

Written by: Dr Mannan Baloch, Secretary General Baloch National Movement (BNM).

Since his existence, either in the form of clan or tribe, native or occupant, man has come a long way and learnt ways to exist including ways to kill. As the civilization progressed, man became accustomed to creating the good (beautiful) as well as the bad and the ugly. Modern times brought advanced weapons more lethal and more destructive created by mankind, to kill mankind.  Many a time throughout history, state church authorities including England, Portugal, Russia, France and Germany with the help of advanced weapons practiced authority and illegal occupation indulging in a barbaric killing spree and creating colonies.

Warfares like such shaped what became to be known as World War I (1914- 1919) and World War II (1939-1945). The colossal damage of these conflicts affected millions of people, and countries like France, Germany, Russia, America, and England as they  lost authority over their respective colonies as well. In 1945, thus came into being the independent and capable authority of United Nations (UN).  At UN platform, the civilized world committed itself to ensure no country or nation would be allowed to practice authority to try to occupy or enslave another nation or country. Similarly that day civilized nations decided to take special measures to protect the world against negative energy and effects of deadly weapons. It was also decided that all capable nations would work together to provide the citizens of the world with better economic and social conditions. This and many other promising and endearing words that we still hold on to become what we today know as Charter of United Nations.
In the wake of these events many nations/countries tasted freedom for the first time. Indian sub-continent was one of those regions too. But unfortunately these events as a direct result of America and Britain's long term strategic interests in Russia, split the Mahabharat in two countries. With the division of Greater India not only a weak federation called Pakistan came into being but it also occupied Balochistan and made it a colony.
Since 1948, Pakistan has unleashed a reign of terror and adopted a policy of oppression and genocide in Balochistan. Owing to the fact that the establishment of the United Nations was a decision of America, Russia, Britain and France etcetera, the policies introduced had to feed their interests and thus the foundation of Pakistan supposedly on the basis of one language and one history being shared with in a certain geography was approved.  However, contradictory to its own policies, where UN acknowledged Pakistan, it deprived Baloch nation of the very rights and freedom it glorifies. But Baloch nation has since then stood up against human rights violations despite all the odds.

Pakistan has been using the Coalition support funds especially military and financial aid from States of America, first under Operation Cyclone and then for the War on Terror, for suppressing the Baloch freedom movement with impunity resulting in the deaths of thousands of Baloch citizens. In 1999, the People’s Republic of China, liberated in 1949, also decided to participate in the Baloch genocide by financing and arming Pakistan to secure China’s access to the Gwadar port, lying along a vital waterway of the world, and for building a road from Kashgar to Gwader, the China Pakistan Economic Corridor (CPEC), to strengthen its control on Balochistan’s natural resources. As Reqo Diq and Saindak huge mineral resources already being plundered by Chinese, CPEC would provide china access to Balochistan as a transit route for its energy and trade requirements. To suppress Baloch resistance to Chinese ambitions, Pakistan and China has joined hands to kill and suppress   Baloch citizens. Therefore, China has directly involved itself as a partner in war crimes such as extra-judicial murders, tortures and abductions of thousands Baloch. In short, China is  involved in the Baloch genocide. Around eighty percent of the total Baloch population is internally displaced because of Pakistani military operations. But the UN’s indifference towards the Baloch Genocide, despite being well aware of the whole scenario, at the hands of the Sino-Pak alliance forces questions the effectiveness and relevance of the UN; the failure of the UN to ensure compliance of member states to follow its policies is a question mark that needs to be answered.    
If the Greeks, for the sake of their existence can resist the IMF and World Bank or Hungary can close its border to refugees despite the European Union’s decision to welcome refugees, or the German people can voice their opinion against their government’s decision to welcome refugees or the British can resist joining the EU then it makes perfect sense for me, as a human, living in an hostile environment to question the usefulness of supranational organizations and express my concerns to them.  

لاپتہ بلوچ اسیران شہدا ء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 2293دن ہوگئے

لاپتہ بلوچ اسیران شہدا ء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 2293دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی بی این پی
کے سنیئر کارکن میر سعید احمد کرد اپنے ساتھیوں سمیت لاپتہ افراد شہدا کے لواحقین سے اظہار ہمددری کی یقین دہانی کرائی اور گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچ قوم کی آزادی کو چھین کر تمام مذہبی انہتا پسندوں کو بلوچستان میں دھکیلنا ہماری سیکولر سماج کو فرقہ پرستی میں بدلنے کی کوششیں کرنا ہمیں اغواء کرکے لاپتہ کرنا عدالتوں میں رجوع کرنے کا موقع دینا جرم ثابت کئے بغیر خفیہ ٹارچر سیلوں میں مختلف اذتییں دیکر شہید کرکے مسخ شدہ لاشیں کی صورت میں پھینک دینا اجتماعی قبروں میں دفنا دینا ماروائے عدالت ٹارگٹ کرکے شہید کرنا بلوچ قومی حیثیت کو تعلیم نہ کرنا ہمیں انسان کے برابر نہ سمجھنا ہمیں تعلیم سے محروم کرنا ہمیں انسان کے بربر نہ سمجھنا ہماری لائبریریاں جلانا ہمیں تعلیمی اداروں سے دور دھکیلنا ہماری ااپنی قالم کردہ تعلیمی مراکز کو بند کردینا ، ہماری آزادی فکر آزادی ضمیر آزادی مذہب کو چھین لینا ہماری خواتین پر تیزاب پھینکنا انہیں غواء کرنا ہمیں مجبور کرکے جلا وطن کرنا پھر خاندانوں کو مختلف طریقوں سے حراسا کرنا ہماری سایسی جد وجہد کو کاونٹر اور سیاسی ورکروں کو مارنے اور کمزور کرنے کیلئے مختلف غیر انسانی حربے استعمال کرنا ہماری روزی روٹی چھیننا ساحل و سائل کر زبرستی سے داموں میں عالمی ممالک کے ساتھ معاہدات کرکے بیچنا ہماری تمام خوشیاں اور آرام چھین کر ہمیں رونے بے چین رہنے اپنی مرضی سے گھومنے نہیں دینا وائس فار مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں اغواء گمشدگیوں اور قتل کرکے لاشیں پھینکنے کا مسئلہ اب دنیا بھر کے نظروں میں آچکا ہے حکومت کو علامی سطحپر جوابدہی کے قیام پر لاکھڑا کردیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طورپر لاپتہ بلوچوں کو بازیاب اور لاشیں پھینکنے کے گھناونے عمل کو بند کرائے

Fatima Butto From Pakistan to India: the journey of a lifetime