Free speech, human rights,Freedom, equality and accountability. We all human are same.Balochistan act for justice on a wide range of issues.Event and News related to Balochistan and world. Baloch In Balochistan have been disappeared and hanged and or murdered by Pakistan's military and securities agencies and Iran regime. Pakistan rarely allows journalists or human rights organizations to travel freely in Balochistan and coverage in the world press is inadequate.
Tuesday, November 17, 2015
بلوچ خواتین کی اغوا ء پر اقوام متحدہ کی خاموشی حیران کن ہے۔ حیر بیار مری
بلوچ خواتین کی اغوا ء پر اقوام متحدہ کی خاموشی حیران کن ہے۔ حیر بیار مری
لندن (بی یو سی نیوز) بلوچ قوم دوست رہنماء حیر بیار مری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچ قوم 68 سالوں سے جس پاکستانی دہشتگردی کا شکار ہے اسی دہشتگردی کا یہ برانڈ اب مغربی ممالک کی سرزمین میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی فوج درندگی و بربریت کی تمام حدیں پار کرکے بلوچ نسل کشی میں شدت لانے کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے بولان کے علاقوں مار واڑ، سانگان و،مار گٹ اور لکڑمیں نہتے بلوچوں کو تشدد کرکے شہید کرنا ، بلوچ بزرگوں کو اذیتیں دے کر دکتے آگ میں پھینکنا ، معصوم بچوں اور بلوچ خواتین کو اغواء کرنا بلوچوں کے گھروں پر فضائی حملے کرکے تباہ کرنا پاکستانی فوج کی بربریت کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج نے انسانی حقوق کی تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر جس انداز میں بلوچ خواتین اور معصوم بچوں کو تشدد کے بعد اغواء کرلیا ہے ایسے سنگین جرائیم پر اقوام متحدہ کی خاموشی انکی کردار پر سوالیہ نشان ہے کیوں کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیا ہوا ہے اوربین القوامی قوانین کے تحت پاکستان تمام انسانی حقوق کی قراردادوں کا پابند ہے جس میں انسانی حقوق کی بنیادی قرارداد یو ڈی ایچ آر(Universal Declaration of Human Rights (بھی شامل ہے لیکن اسی قرارداد کو روندھ کر پاکستانی فوج بلوچستان بھر میں بلوچ قوم کے خلاف خونی آپریشن کرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف بلوچ قوم کی نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے، بلکہ بلوچ عوام کا قتل عام کرنے، بلوچ سیاسی کارکنان کو اغواء کرنے اور ان کی تشدد زدہ مسخ لاشوں کو بلوچستان کے طول و عرض میں پھینکنے کے علاوہ پاکستان نے بلوچستان میں ریاستی بربریت میں تیزی لاتے ہوئے اب بلوچ خواتین کو اغواء کرنا شروع کردیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے بلوچستان کے ضلع بولان کے مختلف علاقوں میں جاری پاکستانی فوجی بربریت کے دوران اٹھائیس بلوچ خواتین کو بچوں سمیت کا اغوا بلوچستان میں جاری ریاستی دہشتگردی کی تسلسل ہے۔حیربیار مری نے کہا کہ اقوام متحدہ بوکو حرام اور عراقی جہادی تنظیموں کی طرف سے خواتین کو اغواء کرنے کی ہر وقت شدید مذمت کرتا ہے لیکن پاکستان جو کہ اقوام متحدہ کا رکن ہے اور درجنوں جہادی تنظیموں کا تولید کنندہ ہے اس کی طرف سے مار واڑ، سانگان، مارگٹ
اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بلوچ خواتین و معصوم بچوں کو اغواء کرنے پر اقوام متحدہ کی مکمل خاموشی اس کی انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوؤں پر سوالیہ نشان ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموش تماشائی پاکستان کی گھناؤنی درندگی کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب بلوچ عوام اپنی دفاع اور ننگ و ناموس کی حفاظت کیلئے پاکستانی بربریت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھاتے ہیں تو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں ہونا تو چائیے تھا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی بربریت پر بھی نظر رکھتے اور اس کا نوٹس لیتے ۔ پاکستان آرمی کی بلوچ ننگ و ناموس کو پامال کرنے کی اس سنگین عمل نے بلوچ عوام کو شدید ذہنی اضطراب اور غم و غصے میں مبتلاء کردیا ہے پاکستان آرمی کی غیر انسانی عمل بین القوامی قوانین کی پامالی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی نفی ہے اور اس بر بریت نے بلوچ اور پاکستان کے درمیان تضادات کو مزید ابھار کر واضح کردیا ہے اب پاکستان آرمی کا یہ غیر انسانی عمل بلوچ عوام کیلئے ناقابل برداشت بن چکا ہے انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی بربریت کا نوٹس لیکر اپنے چارٹر کی پاسداری کریں۔بلوچ قوم دوست رہنماء نے پیرس میں معصوم شہریوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا پیرس پر سفاکانہ حملے کے بعد فرانس سمیت دوسرے یورپی ممالک اپنے خارجہ پالیسی واضح اصولوں کے تحت تشکیل دیں کیوں کہ مذہبی دہشتگرد ریاست پاکستان کا جمہوری طاقتوں کا اتحادی ہونا اور دوسری طرف اسی سوچ پر عمل پیراء داعش جیسی تنظیموں کو دشمن قرار دیکر اعلان جنگ کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم گزشتہ 68سالوں سے مذہبی انتہا پسند پاکستانی فوج کی جانب سے مذہب کے نام پر ریاستی دہشتگردی کا سامنا کر رہی ہے اوراسی سوچ کو لے کر داعیش مغربی ممالک پر حملہ آور ہے آج عالمی دنیا کے لیڈر اس بات پر متفق ہیں کہ مذہبی دہشتگردی ایک نظریاتی جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے مگر اب تک مغربی دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہچکچا رہی ہے کہ پاکستان اور ایران جیسے مذہبی دہشتگرد تنظیموں کے بانی اور داعش جیسی تنظیم کی سوچ و نظریات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
لندن (بی یو سی نیوز) بلوچ قوم دوست رہنماء حیر بیار مری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچ قوم 68 سالوں سے جس پاکستانی دہشتگردی کا شکار ہے اسی دہشتگردی کا یہ برانڈ اب مغربی ممالک کی سرزمین میں بھی داخل ہوچکا ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی فوج درندگی و بربریت کی تمام حدیں پار کرکے بلوچ نسل کشی میں شدت لانے کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے بولان کے علاقوں مار واڑ، سانگان و،مار گٹ اور لکڑمیں نہتے بلوچوں کو تشدد کرکے شہید کرنا ، بلوچ بزرگوں کو اذیتیں دے کر دکتے آگ میں پھینکنا ، معصوم بچوں اور بلوچ خواتین کو اغواء کرنا بلوچوں کے گھروں پر فضائی حملے کرکے تباہ کرنا پاکستانی فوج کی بربریت کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج نے انسانی حقوق کی تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر جس انداز میں بلوچ خواتین اور معصوم بچوں کو تشدد کے بعد اغواء کرلیا ہے ایسے سنگین جرائیم پر اقوام متحدہ کی خاموشی انکی کردار پر سوالیہ نشان ہے کیوں کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیا ہوا ہے اوربین القوامی قوانین کے تحت پاکستان تمام انسانی حقوق کی قراردادوں کا پابند ہے جس میں انسانی حقوق کی بنیادی قرارداد یو ڈی ایچ آر(Universal Declaration of Human Rights (بھی شامل ہے لیکن اسی قرارداد کو روندھ کر پاکستانی فوج بلوچستان بھر میں بلوچ قوم کے خلاف خونی آپریشن کرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف بلوچ قوم کی نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے، بلکہ بلوچ عوام کا قتل عام کرنے، بلوچ سیاسی کارکنان کو اغواء کرنے اور ان کی تشدد زدہ مسخ لاشوں کو بلوچستان کے طول و عرض میں پھینکنے کے علاوہ پاکستان نے بلوچستان میں ریاستی بربریت میں تیزی لاتے ہوئے اب بلوچ خواتین کو اغواء کرنا شروع کردیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے بلوچستان کے ضلع بولان کے مختلف علاقوں میں جاری پاکستانی فوجی بربریت کے دوران اٹھائیس بلوچ خواتین کو بچوں سمیت کا اغوا بلوچستان میں جاری ریاستی دہشتگردی کی تسلسل ہے۔حیربیار مری نے کہا کہ اقوام متحدہ بوکو حرام اور عراقی جہادی تنظیموں کی طرف سے خواتین کو اغواء کرنے کی ہر وقت شدید مذمت کرتا ہے لیکن پاکستان جو کہ اقوام متحدہ کا رکن ہے اور درجنوں جہادی تنظیموں کا تولید کنندہ ہے اس کی طرف سے مار واڑ، سانگان، مارگٹ
اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بلوچ خواتین و معصوم بچوں کو اغواء کرنے پر اقوام متحدہ کی مکمل خاموشی اس کی انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوؤں پر سوالیہ نشان ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموش تماشائی پاکستان کی گھناؤنی درندگی کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب بلوچ عوام اپنی دفاع اور ننگ و ناموس کی حفاظت کیلئے پاکستانی بربریت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھاتے ہیں تو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں ہونا تو چائیے تھا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی بربریت پر بھی نظر رکھتے اور اس کا نوٹس لیتے ۔ پاکستان آرمی کی بلوچ ننگ و ناموس کو پامال کرنے کی اس سنگین عمل نے بلوچ عوام کو شدید ذہنی اضطراب اور غم و غصے میں مبتلاء کردیا ہے پاکستان آرمی کی غیر انسانی عمل بین القوامی قوانین کی پامالی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی نفی ہے اور اس بر بریت نے بلوچ اور پاکستان کے درمیان تضادات کو مزید ابھار کر واضح کردیا ہے اب پاکستان آرمی کا یہ غیر انسانی عمل بلوچ عوام کیلئے ناقابل برداشت بن چکا ہے انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی بربریت کا نوٹس لیکر اپنے چارٹر کی پاسداری کریں۔بلوچ قوم دوست رہنماء نے پیرس میں معصوم شہریوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا پیرس پر سفاکانہ حملے کے بعد فرانس سمیت دوسرے یورپی ممالک اپنے خارجہ پالیسی واضح اصولوں کے تحت تشکیل دیں کیوں کہ مذہبی دہشتگرد ریاست پاکستان کا جمہوری طاقتوں کا اتحادی ہونا اور دوسری طرف اسی سوچ پر عمل پیراء داعش جیسی تنظیموں کو دشمن قرار دیکر اعلان جنگ کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم گزشتہ 68سالوں سے مذہبی انتہا پسند پاکستانی فوج کی جانب سے مذہب کے نام پر ریاستی دہشتگردی کا سامنا کر رہی ہے اوراسی سوچ کو لے کر داعیش مغربی ممالک پر حملہ آور ہے آج عالمی دنیا کے لیڈر اس بات پر متفق ہیں کہ مذہبی دہشتگردی ایک نظریاتی جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے مگر اب تک مغربی دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہچکچا رہی ہے کہ پاکستان اور ایران جیسے مذہبی دہشتگرد تنظیموں کے بانی اور داعش جیسی تنظیم کی سوچ و نظریات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
Pakistan Forces Burn to Ashes Ghulam Mohammed’s Baloch (Chairmain BMN) House .
Personnel of paramilitary FC have set on fire the houses of late Baloch leader Ghulam Mohammed Baloch and his relatives which are located in the same compound.
Late Sunday evening, hundreds of FC soldiers surrounded the compound and torched 14 mud houses belonging to Ghulam Mohammed Baloch and his relatives in his native Mand town, a region bordering Iran.
“You’re a family of traitors. Next time, we’ll burn you all,” the FC soldiers threatened the women present in the compound.
Ghulam Mohammed Baloch was a major Baloch leader, who founded Baloch National Movement, now the largest nationalist party in Balochistan. He was abducted by FC personnel from his lawyers’ chamber in Turbat on April 3, and then his bullet-riddles mutilated body was found dumped in a desolated area near the Turbat city on April 8. He had been previously jailed and tortured for years.
BNM’s foreign secretary Hammal Haider Baloch said the military establishment has resorted to harassing the families of Baloch leaders.
“Hundreds of houses have been burnt all around Balochistan. Some have been razed to ground,” he said.
He added the military had killed Chairman Ghulam Mohammed Baloch in 2009, but still their hatred for him hasn’t faded away. “They think he was the leader of this movement, so let’s teach a lesson to the Baloch people by destroying everything that is somehow related to Ghulam Mohammed.”
Ghulam Mohammed was a key political leader, who helped United Nations to release an American head of UNHCR, John Solecki, who was abducted by Baloch militants in 2009. After Ghulam Mohammed’s assassination at the hands of Pakistan military, the UN and US embassy in Pakistan issues statements to condemn his killing and appreciated his efforts for Solecki’s release.
Paris three days after: state of emergency, profiteers and confusions
Political organisations cannot demonstrate legally in Paris right now, and this helps to ensure that the official discourse is not contested in the streets, and makes it harder for activists to work out collectively a way forward. In addition, for the moment, left organisations have been nervous about calling demonstrations even for next weekend.
President François Hollande, as well as declaring the State of Emergency, has called for a “war without pity”, and has just finished addressing parliament (though no debate or vote is planned, just his speech!). Parliament is sitting in an emergency configuration, where members and senators are all gathered together (and seated in apolitical alphabetical order rather than each with their own political party). Every symbol of national unity is thus being mobilised: Hollande received each party leader separately, including the fascist leader Marine Le Pen, and each was given in this way a platform to give their view of priorities. Le Pen insisted “we’re part of national unity” while demanding all migrants be deported. Sarkozy, from the Republican right said that we are at war and that everything must change. Few details, but the main thrust is: “more powers to the state: the people can trust us”. But how can a national unity including Sarkozy and Le Pen be of any help to ordinary workers and ordinary citizens who these monsters want to divide and crush?
Hollande’s rather clownish speech to parliament was peppered with meaningless gesticulation, but promised more bombing for Syria, more money for anti-terrorist police forces, and more powers for house arrest and for rapid deportation. Fifty more aeroplanes are being sent over to Syria, and military journalists on the radio are getting all excited about the shape of their wings. The army will be recruiting all year. “We will eradicate terrorism”, Hollande repeated five times.
https://redflag.org.au/article/paris-three-days-after-state-emergency-profiteers-and-confusions
President François Hollande, as well as declaring the State of Emergency, has called for a “war without pity”, and has just finished addressing parliament (though no debate or vote is planned, just his speech!). Parliament is sitting in an emergency configuration, where members and senators are all gathered together (and seated in apolitical alphabetical order rather than each with their own political party). Every symbol of national unity is thus being mobilised: Hollande received each party leader separately, including the fascist leader Marine Le Pen, and each was given in this way a platform to give their view of priorities. Le Pen insisted “we’re part of national unity” while demanding all migrants be deported. Sarkozy, from the Republican right said that we are at war and that everything must change. Few details, but the main thrust is: “more powers to the state: the people can trust us”. But how can a national unity including Sarkozy and Le Pen be of any help to ordinary workers and ordinary citizens who these monsters want to divide and crush?
Hollande’s rather clownish speech to parliament was peppered with meaningless gesticulation, but promised more bombing for Syria, more money for anti-terrorist police forces, and more powers for house arrest and for rapid deportation. Fifty more aeroplanes are being sent over to Syria, and military journalists on the radio are getting all excited about the shape of their wings. The army will be recruiting all year. “We will eradicate terrorism”, Hollande repeated five times.
https://redflag.org.au/article/paris-three-days-after-state-emergency-profiteers-and-confusions
Subscribe to:
Posts (Atom)