میں ایوارڑ کیوں واپس کررہی ہوں – ارون دھتی رائے
گاڈ آف سمال تھنگز کی مصنفہ اور اپنے کاٹ دار مضامین سے انسانی ضمیر کو کچوکے دیکر جگانے نے 1989ء میں بھارت کی جانب سے ملا ” بیسٹ سکرین پلے رائٹر نیشنل ایوارڈ ” واپس کرڈالا ہے اور انہوں نے صرف ایوارڑ ہی واپس نہیں کیا بلکہ اس مرتبہ ایک ایسی تحریر بھی اس ایوارڑ واپسی کی اطلاع فراہم کرتے ہوئے لکھی ہے جو ” بھارت میں چل رہے ہندؤتوا کے تماشے ” پر کاری ضرب بھی ہے اور یہ پوری دنیا کے ادیبوں اور دانشوروں کو ویک اپ کال بھی ہے ، میں یہاں پر انڈین ایکسپریس میں شایع ہونے والے ان کے خط کے متن کا ترجمہ دے رہا ہوں ، انگریزی میں جو متن ہے وہ بہت کمال کا ہے اور اس اسلوب کو ترجمے میں ڈھال نہ پانے پر احباب سے پیشگی معذرت بھی کرتا ہوں
میں اگرچہ اعزازات کو جو کام ہم کرتے ہیں ان کو ماپنے کا آلہ خیال نہیں کرتی لیکن پھر بھی میں پہلے سے واپس کردہ اعزازات کے زخیرے میں اپنے آپ کو ملے نیشنل بیسٹ سکرین پلے رائٹر ایوارڑ کو واپس کرکے اضافہ کرنا چاہتی ہوں یہ اعزاز میں نے 1989ء مین حاصل کیا تھا
میں یہ بھی واضح کرنا چاہتی ہوں کہ یہ اعزاز میں اس لئے واپس نہیں کررہی کہ جسے حکومت کی جانب سے ” بڑھاوا دئے جانے والی عدم برداشت ” کہا جارہا ہے ، میں اس کو دیکھ کر ” سکتے ” میں ہوں – میں سکتے میں ایک تو اس وجہ سے نہیں ہوں کہ یہ ” عدم برداشت ” جو لفظ ہے نا یہ انسانوں کو زندہ جلائے جانے ، گولی مارنے ، جلانے اور قتل عام کرنے کی تشریح کے لئے غلط استعمال کیا جارہا ہے – دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ پیشگی ہمارے نوٹس میں ہے – تو جو کچھ اس حکومت کے بھاری اکثریت سے ووٹ لیکر تشکیل کے بعد سے ہوا ، اسے دیکھکر صدمے یا سکتے کا شکار نہیں ہوں اور تیسری وجہ مرے شاک میں نہ ہونے کی یہ ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ جو خوفناک ، ڈرؤانے قتل ہیں یہ ایک گہرے بغض کی محض علامت ہیں
زندگی جینے والوں کے لئے جیون ایک جہنم سے کم نہیں ہے – ساری آبادی جن میں لاکھوں دلت ، مسیحی ، مسلمان شامل ہیں دھشت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کب اور کہاں سے ان پر حملہ ہوجائے گا
ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ٹھگ اور نیو آڈر کے کارندے جب ” غیرقانونی سلاٹر ” کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ایک جیتا جاگتا انسان نہیں ہوتا جسے زبح کردیا گیا ہو بلکہ وہ ایک تصوراتی گائے مراد لیتے ہیں جسے مارڈالا گیا ہو –جب وہ فارنزک شواہد کے معانئے کی بات کرتے ہيں تو اس سے ان کی مراد فریچ میں پڑے کھانے کا معائنہ ہوتا ہے نہ اس انسان کا جسے جلاکر ماردیا گیا ہو
ہم کہتے ہیں کہ ہم نے “ترقی ” کرلی ہے لیکن جب دلت زبح کیا جاتا ہے اور اس کے بچے زندہ جلادئے جاتے ہیں تو کون سا ادیب ہے آج آزادی سے وہ کہے جو بابا صاحب امبیدکر نے کہا تھا کہ
ہندؤ ازم اچھوتوں کے لئے ایک متغیر دھشت کا چیمبر ہے
اور اس طرح کہنے سے اس ادیب کو نہ تو ذبح ہونا پڑے ، نہ اس کو گولی لگے اور نہ وہ جیل جائے
کون سا ادیب ہے جو سعادت حسن منٹو کی طرح وہ لکھ سکے جو اس نے ” انکل سام کے نام خطوط ” میں لکھا تھا ( اور اس پر حملہ نہ ہو )
والی دانشور ارون دھتی رائےمیں اگرچہ اعزازات کو جو کام ہم کرتے ہیں ان کو ماپنے کا آلہ خیال نہیں کرتی لیکن پھر بھی میں پہلے سے واپس کردہ اعزازات کے زخیرے میں اپنے آپ کو ملے نیشنل بیسٹ سکرین پلے رائٹر ایوارڑ کو واپس کرکے اضافہ کرنا چاہتی ہوں یہ اعزاز میں نے 1989ء مین حاصل کیا تھا
میں یہ بھی واضح کرنا چاہتی ہوں کہ یہ اعزاز میں اس لئے واپس نہیں کررہی کہ جسے حکومت کی جانب سے ” بڑھاوا دئے جانے والی عدم برداشت ” کہا جارہا ہے ، میں اس کو دیکھ کر ” سکتے ” میں ہوں – میں سکتے میں ایک تو اس وجہ سے نہیں ہوں کہ یہ ” عدم برداشت ” جو لفظ ہے نا یہ انسانوں کو زندہ جلائے جانے ، گولی مارنے ، جلانے اور قتل عام کرنے کی تشریح کے لئے غلط استعمال کیا جارہا ہے – دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ پیشگی ہمارے نوٹس میں ہے – تو جو کچھ اس حکومت کے بھاری اکثریت سے ووٹ لیکر تشکیل کے بعد سے ہوا ، اسے دیکھکر صدمے یا سکتے کا شکار نہیں ہوں اور تیسری وجہ مرے شاک میں نہ ہونے کی یہ ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ جو خوفناک ، ڈرؤانے قتل ہیں یہ ایک گہرے بغض کی محض علامت ہیں
زندگی جینے والوں کے لئے جیون ایک جہنم سے کم نہیں ہے – ساری آبادی جن میں لاکھوں دلت ، مسیحی ، مسلمان شامل ہیں دھشت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کب اور کہاں سے ان پر حملہ ہوجائے گا
ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ٹھگ اور نیو آڈر کے کارندے جب ” غیرقانونی سلاٹر ” کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ایک جیتا جاگتا انسان نہیں ہوتا جسے زبح کردیا گیا ہو بلکہ وہ ایک تصوراتی گائے مراد لیتے ہیں جسے مارڈالا گیا ہو –جب وہ فارنزک شواہد کے معانئے کی بات کرتے ہيں تو اس سے ان کی مراد فریچ میں پڑے کھانے کا معائنہ ہوتا ہے نہ اس انسان کا جسے جلاکر ماردیا گیا ہو
ہم کہتے ہیں کہ ہم نے “ترقی ” کرلی ہے لیکن جب دلت زبح کیا جاتا ہے اور اس کے بچے زندہ جلادئے جاتے ہیں تو کون سا ادیب ہے آج آزادی سے وہ کہے جو بابا صاحب امبیدکر نے کہا تھا کہ
ہندؤ ازم اچھوتوں کے لئے ایک متغیر دھشت کا چیمبر ہے
اور اس طرح کہنے سے اس ادیب کو نہ تو ذبح ہونا پڑے ، نہ اس کو گولی لگے اور نہ وہ جیل جائے
کون سا ادیب ہے جو سعادت حسن منٹو کی طرح وہ لکھ سکے جو اس نے ” انکل سام کے نام خطوط ” میں لکھا تھا ( اور اس پر حملہ نہ ہو )
یہاں جو کہا جارہا ہے اس سے اتفاق کرنۓ یا نہ کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ اگر ہمیں آزادی سے بات کرنے کا حق نہیں ہے تو ہم ایسے معاشرے میں بدل جائیں گے جو ” دانشوروں کے قحط ” ( انٹلیکچوئل میل نیوٹریشن ) کا شکار ہوگا اور احمقوں کی قوم پر مشتمل ہوگا – پورے برصغیر میں سماج کو ایسے ہی معاشرے میں بدلنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور ہندوستان بھی پورے جوش کے ساتھ اس میں شریک ہوچکا ہے – یہاں ” سنسر شپ ” بلوائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے
میں اس بات پر خوش ہوں کہ مرے پاس ایک قومی ایوارڈ تھا جسے میں واپس کرسکتی ہوں کیونکہ یہ مجھے لکھاریوں ، فلم سازوں اور اساتذہ کی طرف سے شروع کی گئی اس تحریک کا حصّہ بناسکتا ہے جو کہ ہماری اجتماعی دانش نظریاتی سفاکیت کے ساتھ ہونے والے حملے کے خلاف شروع کی گئی ہے – یہ حملہ ہمیں ٹکڑوں مین بانٹ اور پاتال میں دفن کردے گا اگر ہم اس کے خلاف اب اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو
مرا یقین ہے کہ آرٹسٹ اور لکھاری اب جو کررہے ہیں وہ پہلے نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا تاريح میں کوئی مماثل ہے ، یہ دوسرے زریعے سے سیاست ہے اور مجھے اس کا حصّہ ہونے پر فخر ہے جبکہ اس ملک میں جو ہورہا ہے اس پر شرمندگی ہے
پس نوشت :ریکارڈ کے لئے میں بتاتی چلوں کہ میں نے ساہیتہ اکیڈیمی ایوارڈ دو ہزار پانچ میں اس وقت واپس کردیا تھا جب کانگریس حکومت میں تھی تو براہ مہربانی مجھے ” کانگریس بمقابلہ بے جے پی ” جیسی فرسودہ بحث کا حصّہ نہ بنایا جائے ، بات اسے کہیں آگے چلی گئی ہے ، شکریہ
میں اس بات پر خوش ہوں کہ مرے پاس ایک قومی ایوارڈ تھا جسے میں واپس کرسکتی ہوں کیونکہ یہ مجھے لکھاریوں ، فلم سازوں اور اساتذہ کی طرف سے شروع کی گئی اس تحریک کا حصّہ بناسکتا ہے جو کہ ہماری اجتماعی دانش نظریاتی سفاکیت کے ساتھ ہونے والے حملے کے خلاف شروع کی گئی ہے – یہ حملہ ہمیں ٹکڑوں مین بانٹ اور پاتال میں دفن کردے گا اگر ہم اس کے خلاف اب اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو
مرا یقین ہے کہ آرٹسٹ اور لکھاری اب جو کررہے ہیں وہ پہلے نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا تاريح میں کوئی مماثل ہے ، یہ دوسرے زریعے سے سیاست ہے اور مجھے اس کا حصّہ ہونے پر فخر ہے جبکہ اس ملک میں جو ہورہا ہے اس پر شرمندگی ہے
پس نوشت :ریکارڈ کے لئے میں بتاتی چلوں کہ میں نے ساہیتہ اکیڈیمی ایوارڈ دو ہزار پانچ میں اس وقت واپس کردیا تھا جب کانگریس حکومت میں تھی تو براہ مہربانی مجھے ” کانگریس بمقابلہ بے جے پی ” جیسی فرسودہ بحث کا حصّہ نہ بنایا جائے ، بات اسے کہیں آگے چلی گئی ہے ، شکریہ
No comments:
Post a Comment