Friday, February 7, 2014

فروری کے مہینے کے آخری دن چل رہے تھے۔

Saba D (2)
فروری کے مہینے کے آخری دن چل رہے تھے۔
خزاں رسیدہ درختوں پر بہار کے پھول کھلنے کو تھے؛
یہ تین سال پہلے کی ایک شام کا ذکر ہے۔ کراچی کی فضاؤں کے تیور اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ موسم کا مزاج بس کچھ دن میں گرم ہوا چاہتا تھا ۔ ہم شہر کی ایک مصروف ترین سڑک ۔۔۔۔۔ شاہراہ فیصل ۔۔۔۔۔۔ سے گزر رہے ہیں۔ ہمارا رُخ لیاری کی جانب تھا۔ جہاں مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے بلوچی ماہنامہ “ سچکان ” نے ایک تقریب منعقد کررکھی تھی۔ اس دن کو ۔۔۔۔ آگے چل کر ۔۔۔۔ کچھ ہفتوں ، مہینوں میں تلخ یاد میں بدلنا تھا۔ وقت کی رفتار میں ٹھہراؤ نہیں۔ یہ گزرکر خوشگوار، تلخ ۔۔۔۔۔ یادوں میں ڈھݪ جاتا ہے۔
صباء دشتیاری سے آج کی ملاقات آخری ثابت ہوگی ۔۔۔۔۔ شام کے سائے پھیل رہے تھے لیکن ان لمحات میں۔۔۔۔ ملاقاتوں کو یادوں میں بدلنے کی۔۔۔۔ بدگمانیوں کا گزر نہیں تھا۔
صباء کو پہلی مرتبہ میں نے مرحوم شاعر کریم رضا کے اسکول میں دیکھا۔ ہمارے محلے میں برطانیہ کے زمانے کا ایک سندھی میڈیم اسکول چلا آرہا ہے۔ خیرلسانی جبر کے دباؤ کے سامنے اب سندھی میڈیم اسکول کا قصہ تمام ہوچکا البتہ ان ہی اسکولوں میں سے ایک عمارت کے چوکیدار بلوچی زبان کے شاعر کریم رضا تھے۔کریم بخش ان کا اصل نام تھا اور تخلص رضا رکھتے تھے۔
رسوا کن عاشق تھے ؛ جس کے پیچھے پڑجاتے وہ نیک نام نہ رہتی۔ خوش گپ اور کہانی ساز انسان بھی تھے۔ بندوق پر چادر لپیٹ کر، اس کی کہانی ایسے پیرائے میں بیان کرتے گویا کوئی بدقماش شخص کسی کوٹھے سے دوشیزہ کو ساتھ لئے جارہے ہیں؛ جس کی پردہ داری واجب ہے۔ محلے کی ایک دو ، نسلوں نے ان سے فیض حاصل کیا۔ صباء کے متعلق بھی انہوں نے مختلف کہانیاں بیان کی تھیں ۔ صباء سے منسوب واقعات کا بیان سحر انگیز انداز میں کرتے تھے۔ جس سے سماں ایسے بندھ جاتا کہ وہ دنیا اور صباء کے بیچ واحد رابطہ کار ہیں۔
ہرچند وقت کیساتھ محلہ سے باہر پھیلے دوستوں، خیالات اور لوگوں سے جب ہماری نشستیں بڑھیں تو ان نشستوں میں صباء کبھی چاکیواڑہ میں ملا فاضل لائبریری اور کبھی کہیں راہ چلتے مل جاتے۔ یہ نوے کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ اس وقت کا صباء بلوچی زبان کا کل وقتی خدمتگار تھا ان کے بے لچک رویہ نے کچھ “ بڑے ” بلوچ ادیبوں کو ان کا مخالف بھی بنادیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صباء کے برعکس یہ ادیب بلوچی زبان کی خدمت کا کچھ دنیاوی صلہ ملنے کے قائل تھے اور غالباً اب بھی ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صباء کو ان کی بظاہر کوئی پرواہ نہیں تھی ،وہ صرف ہر خبر پر نظر رکھتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس نے ،کس سے کتنی دہاڑی لی۔
سالوں بعد ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ لائبریری نے ایک لکیر کھینچ دی۔ صباء چھا ساگئے تھے۔ کمیونسٹُوں کی جنسی کجرویوں پر افسانہ ۔۔۔۔۔ طبقاتی کش ماں کشں ۔۔۔۔۔ لکھنے والا صباء ان دنوں ایک رجحان ساز شخص لگتے تھے ۔ بہت سارے لوگ ان کی بلند مرتبت کے قائل ہوچکے تھے جن میں طالب علم بڑی تعداد میں شامل تھے ۔ جن کا بلوچی زبان کے کاموں سے تعلق تیس فیصد تو بلوچ نیشنلزم سے ستر فیصد کا رشتہ تھا جبکہ بلوچ نیشنلزم کو صباء اس عرصہ میں ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے دیکھتے تھے ۔
سال 1988ء کے انتخابات کے بعد بلوچ نیشنلزم کے ایک مکتبہ فکر نے گند کاریوں کی فصل تیار کی تھی۔ اس کے ثمر نے ایسے لوگوں کو برگشتہ کیا جو مساوات کا خواب لے کر سیاست کے کوچہ میں سرگرداں تھے۔۔ یہ زمانہ ایسا لگتا تھا جیسے نظریات نانی اماں کی کہانی کا حصہ ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صباء غالباً خیال کرتے تھے؛ ایمانداری کا تقاضہ ہے کہ وہ سیاست سے نفرت کریں؛ چہ جائیکہ وہ برادران خورد و بزرگان کی سیاست ہو۔
سوئی سدرن گیس کی ملازمتیں، نائب تحصیلدار کی نوکری، ڈی سی بنانے کی عرض داشتیں، کام نکلوانے کیلئے گھروں پر، ایشیا کو اپنے خون سے سرخ کرنے کے نعرے باز، رہنمایان کی خوش آمدیوں سمیت دعوتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان حالات نے لوگوں کی بڑی تعداد کو سیاست سے دلبرداشتہ کردیا تھا ۔ان دنوں کے صباء کی ساری دلچسپی بلوچی زبان سے تھی۔
لوگ کن کن لہجوں میں بات کرتے ہیں؛ خالص زبان کیا ہوتی ہے؛ زبان میں تبدیلی کیونکر آتی ہے؛ بلوچی زبان میں کن کن حروف کی آوازیں پائی جاتی ہیں؛ بلوچی زبان میں کس نے کتنا کام کیا ؛ یہ سارا کام کہاں کہاں بکھرا پڑا ہے؛انہوں نے یک بہ یک وقت اور سرمایہ لگاکر ادارہ بن کر کام کیا۔
غالباً، سال 2001 کے دن تھے؛ جب چاکیواڑہ میں کسی مارکسسٹ بلوچ نیشنلسٹ دوست کے گھر زوروں کی بحث چل رہی تھے۔ موضوع بحث زبان تھی۔ صباء اس بات کے قائل تھے کہ نیک نہاد گاندھیائی اسلوب اپناکر زبان کو ترقی دی جاسکتی ہے۔ مارکسسٹ بلوچ نیشنلسٹ دوست صباء کو منوانے پر تلا ہوا تھا “ استاد یہ ریاست طے کرتی ہے کون سی زبان کو اور کیونکر ترقی دینا ہے؛ ” بنگالی زبان ؛ اردو سے ترقی یافتہ تھی ، حتی کہ سندھی زبان بھی ، اور جو علاقہ پاکستان بنا یہاں اردو بولنے والے قلیل تعداد میں تھے پھر بھی اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا اور زبان کیلئے مختص سارے سرمایہ کا بہاؤ اس کی جانب کردیا گیا۔ بنگالی زبان جس کے پاس نوبل انعام تھا، لیکن رابندرناتھ ٹیگور کا یہ اعزاز بنگالی زبان کے کسی کام نہ آیا۔ جن کی زبان اردو تھی وہ ہر ادارہ پر چھاگئے۔ ”
محفل میں بیٹھے سیاسی کارکنان؛ مارکسسسٹ دوست کے فلسفہ کے قائل ہوگئے تھے۔ ادیب و شاعر استاد کے حامی بن چکے تھے۔ مجلس شام کی روایتی مجلسوں کی طرح اختتام کو پہنچی۔ چلتے چلتے استاد کے چہرے سےاندرونی تکلیف عیاں تھی۔
لگتا تھا صباء شدید درد کے دورے سہہ رہا ہے لیکن خاموشی اور گہرے سکون کیساتھ ۔ شاید وہ اپنے اندر کچھ آوازیں سُن رہا تھا۔ جہاں نظریات سے شُد بُد رکھنے والا کوئی مارکسسٹ دوست اپنے استاد کو غلط ثابت کرنے کیلئے منطق کے کچوکے مار رہا تھا۔
صوفی منش صباء کے باطن کی تنہائی ان کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی۔
“وہ اکتا گئے تھے زندگی کا ایک طویل حصہ تنہائی میں گذار تے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی موت کا انہوں نے خود ہی انتخاب کیا۔ صبا دشتیاری گوتم بدھ کی مورتی ، غوث بخش بزنجو اور گوہر ملک کی تصاویر کے سامنے گھنگھرو پہنتے، ناچتے اور ستار بجایا کرتے تھے۔ ” صباء کو یاد کرتے ہوئے صحافی ارشاد مستوئی نے مجھے لکھا۔
21 فروری 2011 کو میں ان کو سُن رہا تھا۔ یہ سماعت آخری سماعت نکلی۔ وہ پاگل ہوچکے مارکسسٹ دوست کے الفاظ بیان کررہا تھا۔ لسانیاتی معاملات کا فیصلہ اکیڈمیاں نہیں، سیاست کرتی ہے۔ جب بلوچستان کے حالات وہ نہ رہے، جو 1988ء میں الیکشن کے بعد پیدا ہوئے تھے، تب صباء جنگ جو بن گئے تھے۔
جو مارکسی دوست نے 2001 میں کہا، صباء وہ کچھ دس سال بعد کہہ رہا تھا
“ پہ زبان ءِ دیم روی ءَ بلوچ ءَ وت واجہی پکار انت اندگہ گپ دروغ انت۔ ”

No comments:

Post a Comment