چیس جنوری 2014 کو بلوچستان کے علاقے توتک سے تین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ ایشین ہیومن
رائٹس کمیشن کے مطابق ان قبروں سے 100 سےزائد لاشیں برامد ہوئیں جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ لاشیں بلوچ لاپتہ افراد کی ہیں، جن کی بازیابی کے لیے اس وقت بھی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کراچی تا اسلام آباد پیدل لانگ مارچ جاری ہے۔ نہ جانے وہاں سے اور کتنی قبریں اور لاشیں برامد ہوتیں لیکن اس خبر کے پھیلنےکےکچھ دیر بعد پاکستان کی ملٹری نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور ہر خاص و عام کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔
بلوچوں کے ساتھ ہونےوالی ناانصافیوں کو عوام کے سامنے لانے پر میڈیا پر پابندی عائد ہے اور اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ملٹری فورسز نے ناصرف میڈیا کا بھی اس علاقے میں داخلہ بند کردیا بلکہ خاموش رہو کا فرمان بھی جاری کردیا۔ ہمارے میڈیا کا المیہ ہے کہ یہاں وینا ملک کا سر پر دوپٹہ اوڑھنے کی قسم، میرا کی ڈرٹی ویڈیو، دھوم تھری کے ریکارڈ اور عمر اکمل تھانے میں ۔۔ تو بریکنگ نیوز بن سکتی ہے مگر بلوچ لاپتہ افراد کے لیے لانگ مارچ اور توتک سے اجتماعی قبروں کی دریافت بریکنگ نیوز تو کیا نیوز ہی نہیں۔ گو کہ حامد میر نے 29 جنوری 2014 کو اجتماعی قبروں کی دریافت اور میڈیا کی بےحسی اور مجبوری پر سیر حاصل کالم لکھا لیکن شفیق مینگل اور نفاذ امن لکھنے سے ان کا قلم بھی قاصر رہا۔ بحرحال اب پاکستانی میڈیا سے گلہ کرنا بیکار ہے کیونکہ بلوچوں سے ہونےوالی ناانصافیوں پر میڈیا کی خاموش زبان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہمارا میڈیا آذاد نہیں۔
دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی بلوچستان کو طلب کیا اور کمشنر خضدار سے بھی رپورٹ طلب کی۔ عدلیہ کا نوٹس لینا اچھی بات ہے لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گذشتہ 6 برسوں سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتحار محمد چودھری نےجس لاپتہ افراد کیس کا راگ الاپنا شروع کیا تھا وہ آج بھی بغیر کسی پیش رفت کے اپنی ناکامی کی داستاں خود سناتا ہے۔ اس کیس میں ملوث ایف سی اور دیگر انٹیلیجنس ایجنسیوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لا کر پاکستان کی عدلیہ نےاپنی کارکردگی اور ‘انصاف سب کے لیے’ پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے، ایسی صورتحال میں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے از خود نوٹس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟؟ یقیناً کچھ نہیں۔۔ ایسے میں عدلیہ سےانصاف اور شفاف انکوائری کی امید رکھنا وقت کے ضیاع سے ذیادہ کچھ نہیں۔
انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونا کے مصداق بلوچستان کی حکومت نے بھی اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کردیا ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلی ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے حکومت میں آنے سے پہلےہی واویلا مچا دیا تھا کہ ان کی اولین ترجیح ناراض بلوچوں سے مذاکرات اور لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی ہے لیکن ان کے 7 ماہ کے دور حکومت میں بلوچوں سے بڑھتی ہوئی ناانصافیاں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے وعدوں اور دعووں پر تمانچہ ہے۔ بلوچوں کے مسائل حل کرنا کجا مالک صاحب نے تو یہ کہہ کر اپنے ہاتھ اٹھا لیے کہ ان کے پاس اقتدار تو ہے مگر اختیار نہیں جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بلوچستان کی حکومت مکمل طور پر اپاہچ ہے جسے صرف کرسی پر آرام کرنےکی ہدایت ہے۔
جہاں تک بات ہے وفاقی حکومت کی تو گذشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت کا کام بھی ذاتی خزانےبھرنے سے ذیادہ کچھ نہیں، باتیں من من کی اور کام ٹائیں ٹائیں فِش۔۔۔۔
بحیثیت عام انسان ذہن میں ایک سوال ضرور ابھرتا ہے کہ آخر ایسی کون سی قوت ہے جس نے بلوچستان کے مسائل پر حکومت، عدلیہ اور میڈیا کی زبانیں بند کی ہوئیں ہیں۔ گو کہ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی جانتا ہے پر زباں بیاں سے گریزاں۔۔۔
یوں تو بلوچوں سے ناروا سلوک کی داستاں بہت طویل ہے، جسے پاکستان سے شروع کیا جائے تو 1948 سےاب تک پاکستانی حکومتوں اورملٹری فورسز کی جانب سے بلوچوں کے خلاف 5 آپریشنز ہیں، جن میں ہزاروں بلوچوں کو مارا گیا لیکن 2005 میں پاکستان ملٹری فورسز کی طرف سے شروع ہونےوالی
، مارو اور پھینکو پالیسی نے جہاں بلوچوں کے زخموں کو مزید گہرا کیا وہاں بلوچوں میں نفرت اور انتقام کی آگ کو بھی بھڑکایا اور تب سے اب تک بلوچستان بھر میں ریاستی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ماورائے عدالت و قانون چھاپوں اور جبری طور پر بلوچوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز موجود ہیں جس میں ایف سی اور سیکیورٹی اہلکار سرعام بلوچوں کو اغوا کررہے ہیں ۔۔
، مارو اور پھینکو پالیسی نے جہاں بلوچوں کے زخموں کو مزید گہرا کیا وہاں بلوچوں میں نفرت اور انتقام کی آگ کو بھی بھڑکایا اور تب سے اب تک بلوچستان بھر میں ریاستی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ماورائے عدالت و قانون چھاپوں اور جبری طور پر بلوچوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز موجود ہیں جس میں ایف سی اور سیکیورٹی اہلکار سرعام بلوچوں کو اغوا کررہے ہیں ۔۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا لانگ مارچ اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن پاکستانی حکومت، عدالت، میڈیا اور عوام کی بے حسی جوں کی توں برقرار ہے۔ ان میں سے کسی کی جرات نہیں کہ وہ پاکستان کی ملٹری فورسز اور ریاستی انجنسیوں کےبلوچوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، ماورائے عدالت گمشدگیوں اور قتل پر لب کشائی کرسکیں، بلکہ وفاق کی جانب سے حالیہ آرڈیننس کی منظوری جو کہ جبری طور پر لاپتہ کرنےوالے اداروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچوں کے قتل میں پاکستان کی ملٹری
فورسز کے ساتھ حکومت، عدلیہ، میڈیا اور عوام بھی برابر کےشریک ہیں۔ ہم سب بلوچوں کے قاتل ہیں۔۔۔
فورسز کے ساتھ حکومت، عدلیہ، میڈیا اور عوام بھی برابر کےشریک ہیں۔ ہم سب بلوچوں کے قاتل ہیں۔۔۔
ہمارے نام یقیناً مختلف ہیں مگر اندر سے ہم سب شفیق مینگل ہیں، وہی شفیق مینگل جس کی رہائش گاہ کے قریب اجتماعی قبریں دریافت ہیں، وہی شفیق مینگل جو نفاذ امن کا سربراہ ہے، جسے قومی سلامتی اداروں کی ناصرف پشت پناہی حاصل ہے بلکہ اس کی پرائیویٹ آرمی کو ہتھیار اور گاڑیاں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ توتک کے باسی ڈھکے چھپے الفاظ میں صرف اتنا بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کی قائم کردہ یہ پرائیویٹ آرمی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کو یہاں اپنی نجی جیل میں اغوا کرکے لاتے ہیں اور پھر کہیں کسی کونے سے ان کی مسخ شدہ لاشیں مل جاتی ہیں۔۔
ان حالات میں جب محافظ قاتل بن جائیں، تو کیا یہ مان لیا جائے کہ ان اجتماعی قبروں سے صرف 16 لاشیں برآمد ہوئیں ؟ کیا مان لیا جائے کہ حکومت اور عدلیہ اس واقعے کی جو رپورٹ پیش کریں گی، وہ 100 فیصد درست ہوں گی؟؟ کیا ان مرنےوالوں کو انصاف ملے گا؟ کیا انہیں مارنےوالوں کا احتساب ہوگا؟ کیا قومی سلامتی اداروں، حکومت، عدلیہ اور میڈیا پر یقین کرنے کا کوئی ایک بھی جواز ہے ۔۔۔۔ ؟؟ اور کیا ریاستی سیکیورٹی اداروں کی بلوچوں کے خلاف بربریت پر ہماری خاموش زبانیں ہمیں بھی شریک جرم نہیں ٹھہراتیں؟
No comments:
Post a Comment