Thursday, January 30, 2014

ریاستی فورسز بلوچستان میں ہر قسم کی غیر قانونی اقدامات اُٹھانے میں آزاد ہوگئے ہیں، بی ایچ آر او

ریاستی فورسز بلوچستان میں ہر قسم کی غیر قانونی اقدامات اُٹھانے میں آزاد ہوگئے ہیں، بی ایچ آر او

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ فورسز نے بلوچستان کے علاقے مشکے نوکجو میں ماورائے عدالت و قانون چھاپہ مارکر سلیمان بلوچ اور بی این ایم کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر منان بلوچ کے گھر کی چادرو چاردیواری کی تقدس کی پامالی کرتے ہوئے چار بزرگ عبدالحکیم ،تاج محمد ،سنوالی اور عطا بلوچ جس کی عمر 75/70کے درمیان ہے کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا ان کے علاوہ 2بچوں کو بھی اُٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے ساتھ ہی گھروں میں موجود خواتین اور بزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ نوکجو سے چند قدم فاصلے پر النگی کے مقام پر فورسز قدیر بلوچ ولد سبو اور ماسٹر قیوم کو اغواء کر کے اپنے ساتھ لے گئے ہیں اس کے علاوہ ترجمان نے مزید کہا کہ 29 جنوری کی رات کو ریاستی فورسز کے اہلکاروں نے مشکے کے علاقے کو محامرہ میں رکھ کر علاقے میں ماورائے عدالت و قانون چھاپوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا چھاپوں کے دوران سلام بلوچ اور زوہیب بلوچ کے گھروں کو جلا دیا گیا اس کے علاوہ گھر گھر غیر قانونی طور پر تلاشی لے کر گھروں میں موجود قیمتی اشیاء کو بھی اپنے ساتھ لے گئے اور ساتھ ہی بہت سے چیزوں کو جلا دیا گیا ۔بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کر ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی شدت اختیار کرتی جارہی ہے بلوچ فرزندوں کو اغواء کرکے بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکے جاتے ہیں عام آبادیوں پر حملہ کئے جاتے ہیں ۔سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ سمیت دیگر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے باوجود ریاستی سیکورٹی اداروں اور اہلکاروں کے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی نہیں کی جاتی ہے جسکی وجہ سے ریاستی فورسز اور ریاستی ادارے ہر قسم کی غیر قانونی اقدامات اُٹھانے میں آزاد ہوگئے ہیں اور بلوچستان بھر میں عدم تحفظ اور خوف و حراس کا ماحول پیدا ہوچکا ہے ۔ریاستی زمہ دار اداروں سمیت عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی بلوچستان کی صورتحال کو بھانپتے ہوئے جلد از جلد عملی اور موثر اقدامات کرنے چاہیے تاکہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے مسلسل انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکا جاسکے ۔

No comments:

Post a Comment