میرا قاتل کون ہے…؟ میں کس کی ملکیت ہوں…؟”
شہید کی کُهلی آنکهیں،اپنے آس پاس کهڑے لوگوں کو تکتے ہوئے،ڈهونڈتی ہونگی کہ اُن میں میرا قاتل کون ہے؟وہ کہ جس نے جسم سے روح کا جڑا دهاگہ کاٹ دیا….یا وہ تماشائی جو دور shaheedکهڑے خاموشی سے میرے گهر میں بچهے صفحہ ماتم کو دیکهتا ہے. جس میں اتنی بهی جرات نہیں کہ آگے بڑه کر میرے جنازے کو کندها دے.میری ماں کی آنکهوں سے بہتے آنسو پونچه سکے،میری بہن کے سر سےاُتری چادر دوباره اس کے سر پہ ڈال سکے،میرے غمزده باپ اور میرے رنجیده بهائی سے ہمدردی کے دو بول بول سکے.
نجانے اس کے لہو سے کس کس کے ہاته رنگے ہوئے ہیں؟؟
کون ہے جس نے اسے قتل کیا؟کیا اُس کے قاتل محض ظالم قبضہ گیر ہیں کہ جس نے اسے اغواء کر کے شب و روز اذیت دے کر اسے مار ڈالا،اور اس کی لاش ویرانے میں پهینک دی؟یا وہ ضمیر فروش بهائی جس نے اس کی پیٹ میں چهرا گهونپا؟
ایک بدحال،بے بس و لاچار بلوچ اپنی بدحالی کا مورد الزام کسے ٹهہرائے؟وہ بد نصیب جو مرنے سے پہلے پل پل مرتا ہے.ہر لمحہ جہد میں لگا رہتا ہے،کئی دروازے مڈ کےلیے کهٹکٹاتا ہے.بهوک وپیاس سے نڈهال در بدر گهومتا ہے،جو زندگی کی معمولی ضروریات کے لیے بهی ترستا ہے جس کے سرپرست بهائی نے چند ٹکڑوں کے عیو ض اس جیسے کئی بهائیوں کو بهیچ دیا ہے.ان کی حالت ایسی کر دی ہےکہ نہ تن پہ کپڑا ہے نہ پیر میں جوتے نہ پیٹ میں کهانا اور دوسری طرف وه سوداگر جس کے اعلی نسل کے کتے بهی پُر آسائش زندگی گزارتے ہیں.وہ کسے اپنی بدحالی کا مورد الزام ٹهہرائے ،قبضہ گیر کو یا قبضہ گیر کے تلوے چاٹنے والے اپنے بےحس بهائی ک وکہ جس نے چند ٹکڑوں کے عیوض لاتعداد بهائیوں کی زندگیوں اور خوشیوں کی نیلامی کر کے اپنے لیے وقتی خوشی خریدی بقول کسی شاعر کے
“میں کس کے ہاته میں اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہن رکهے ہیں دستانے”
ان سوالات کا اخٹام یہاں نہیں اس سےآگے بهی ایک طویل سلسلہ چلتا ہے جہاں شہید کی سوچ اور مقصد سے نا واقف لوگ،اس کی لاش کا سودا لگانے اور اس کی بندر بانٹ کرنے پہنچ جاتے ہیں.اس کے اپنے مثل گده اس کے مرده جسم کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنے حصے میں آئے ہوئے ٹکڑے پراپنی ملکیت کا مہر لگا دیتے ہیں اور حقیقی مالک کو اس کی مردہ جسم کی ملکیت سے بهی محروم کر دیتے ہیں.
اُس شہید کے بس میں ہو تو لحد میں سے اُٹه کر اپنے جسم کے سوداگروں کا گریباں پکڑ کے پوچهے کہ کیوں اس کی سوچ اور اس کے جسم کو اس کے حقیقی مالک سے چهین کر اس کا سودا لگا رہے ہو.کیوں مادر وطن کے فرزند کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اُن پہ اپنی ملکیت کی مہر لگا رہے ہو.ایک بلوچ شہید کا مقصد و سوچ کہ جس پہ چل کے اس شہید نے اپنی جان کا نزرانہ پیش کیا ہوتا ہے وہ اس کی بچی کُچی ہڈیوں کے ساته اس کے لواحقین کر دی جاتی ہے.
مردہ جسم کے سوداگر لاش کا سودا لگا کر اپنے راستے چلے جاتے ہیں جبکہ اس کے سوچ کے پجاری اس شہید کی چهوڑی ہوئی منزل پہ روانہ ہو کے ٹوٹی کڑیوں کو وہی سے جوڑتے ہیں جدهر سے اس راہی کی شہادت سے یہ ٹوٹ گئی تهی.
حرف آخر پهر شہید کا وہی سوال کہ”میرا قاتل کون ہے؟” وہ جن کے ہاته میرے لہو سے رنگے ہوئے ہیں یا وہ جو اپنے دستانے پہنے میرے قتل میں شریک تهے.
میں کس کی ملکیت ہوں؟عظیم مادر وطن کی کہ جس کی آجوئی میرا مقصد حیات وموت تها یا وہ گروہ جو میری سوچ سے ناواقف،میرے مردہ جسم کے دعویدار بنے اس پہ اپنی اپنی ملکیت کا مہر ثبت کر چکے ہیں.
No comments:
Post a Comment