Tuesday, March 4, 2014

27اکتوبر2013 کوئٹہ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ 106 دن کے کھٹن اور تکلیف دہ سفر کے بعد 2 مارچ 2014کو اپنی منزل پر پہنچا ۔


THE HIDDEN HEROS
27اکتوبر2013 کوئٹہ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ 106 دن کے کھٹن اور تکلیف دہ سفر کے بعد 2 مارچ 2014کو اپنی منزل پر پہنچا ۔
عظیم ہیں وہ رستے جن سے یہ عظیم لوگ گزرے ہیں۔جن کا مقصد تمام لاپتہ بلوچوں کی بازیابی،بلوچستان کے مظلوم لوگوں کی آواز بن کر اُسے ہر اُس انسان تک پہنچانا جو بلوچستان میں ہونے والے ظلم و زیادتی کے بارے میں نہیں جنتا۔
ان کی یہ جدوجہد دنیا کہ ہر اُس مظلوم قوم اور انسان کے لیے بھی ہے جو کسی نہ کسی ظلم کا شکار ہیں۔
ان کی اس ہمت وبہادری نے انسانیت کو زندہ کردیا ۔اس مارچ نے لوگوں کو ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کا شعور دیا۔
ہمیں اپنے قوم کے ان
عظیم ہیروز پر فخر ہے۔ پوری بلوچ قوم ان کو سُرخ سلام پیش کرتی ہے۔

واس فور بلوچ مسنگ پرسنز کے لانگ مارچ کے ان ہیروز کے بارےمیں بہت سارے لوگوں نے لکھا اور اُن کے اس مقصد کو سراہا،اور ان کے بارے میں جتنا لکھا جائے کم ہے۔
لیکن میں اُن چُھپے ہیروز کے بارے میں بارے میں لکھ رہی ہوں ۔جن کے ساتھہ نے عظیم مارچرز کو ہمت اور حوصلہ دیا،اور جو اس کٹھن سفر میں انکے ساتھہ ساتھہ رہے۔ ان ہیروز کو بلوچ قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
یہ ایک تاریخی لانگ مارچ تھا اس میں شامل ہر وہ انسان میری نظر میں ہیرو ہے اورتعرف کے مستحک ہے جو اس طویل سفر میںان کے ہمسفر بنے اور ان کے سات ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔

ہمارے عظیم اُستاد میر محممد علی تالپور اس عظیم حستی کو کون نہیں جانتا۔ ان کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ ایک شفق انسان جن کا دل محبت سے بھراہوا اور جن کے پاس علم کا سمندر ہے۔عظیم اُستاد میر محممد علی تالپور کاشفیق سایہ ہمشہ ان دلیر مارچرز کے سر پر رہا۔جنوں نے ہر قدم ان کی رہنمائی کی۔
اُستاد میر محممد علی تالپورکے سات نےان کو ہمت دی۔
میں ہمارے ان عظیم اُستاد میر محممد علی تالپور کو پوری بلوچ قوم کی طرف سے سرخ سلام پیش کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ ان کا مہربان سایہ ہمشہ ہمارے سر پہ سلامت رہے۔
بلوچ قوم ان کی عظیم خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ہمیں ان پر فخر ہے۔ 

اس لانگ مارچ میں شامل دو ایسے بہادر فرزند بھی تھے۔جن کے اُپر بہت بڑی ذمہ داری تھی۔ لاپتہ افراد کی خاموش تصویروں سےسجی رہڑی کو 3000کلومیٹر تک اپنے ہاتوں سے منزل کی طرف دھکیلتے رہنا۔
جب ایک بہادرفرزند رہڑی کو منزل کی طرف دھکیلتا دھکیلتا تھک جاتا تو دوسرا بہادرفرزند اپنی ذمہ داری سمبالتا اور اس وزنی رہڑی کومنزل کی طرف دھکیلنا شروع کر دیتا۔
ان بلوچ فرزندوں کی ہمت کو سرُخ سلام۔

اس لانگ مارچ میں ایک ایسا ہیروں بھی تھا،جس کی وجہ سے ہم اور پوری دنیا کو اس تاریخی لانگ مارچ کی پل پل کی خبر ملتی اور اس لانگ مارچ کے ہر اُُس عظیم پل کو اپنے کیمرا کی آنکھہ میں محفوظ کیا۔جو تاریخ میں ہمشہ اس لانگ مارچ کی گوائی دیتے رہیں گے۔
اُس نے اپنی ذمہ داری بڑی اچھی طرح سے نبایا۔
آج اگر دنیا اس عظیم تاریخی لانگ مارچ کے بارے میں جانتی ہے تو وہ صرف اور صرف اس فرزند کی کوششوں کی وجہ سے۔إس بہادر فرزند نے ہر مشکل کابڑی بہادری سے مقابلہ کیا، اس لانگ مارچ کے دوران دشمن کے ایک حملے میں زخمی بھی ہوا لیکن ہمت نہ ہاری اور جوذمہ داری قوم کے اس بہادر فرزند کے کندوں پر تھی اس کو نباتا چلا گیا۔ بلوچ قوم اپنے اس دلیر فرزند کوسُرخ سلام پیش کرتی ہے۔

ہم اُن سپوٹرز کو بھی فراموش نہیں کر سکتے جھنوں نے ہر قدم لانگ مارچ کے شرکہ کا سات دیا۔اُن کے سات یک جہتی کی۔یہ لانگ مارچ جہاں سے گزرتا اُن پر پھولوں کی پتیا نیچاور کرتے،ہماری بہنوں کو عزت کے طور پر چادر دیا جاتا۔
اس لانگ مارچ کو سپورٹ کرنے والوں نے بلوچوں کی تکلیف و درد کو اپنا درد سمجھا اور ہر قدم ان کا سات دیا۔جب بھی اس لانگ مارچ کا زکر ہو گا ،اُن سپوٹرز اوران کےدیے ہوئے محبت و عزت کو ہمشہ یاد رھکاجائے گا۔جنوں نے لانگ مارچ کے بہادروں کے سات مل کر ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور قدم سے قدم ملا کر ان کے ہمسفر بنے۔
ہم ان سب کی انسانیت دوست سوچ کو اسلام کرتے ہیں۔

جب یہ لانگ مارچ پنجاب میں داخل ہوا تو اجنبیت تکلیف،ازیت،اور نفرت نے ان مارچرز کااستقبال کیا۔ منزل قریب تھی مگر رستہ کھٹن اور تکلیف دہ تھا۔ وہ بہادری سے منزل کی طرف بڑتے گیے۔ان حالات کے باوجود انسانیت دوست اور انسانیت سےمحبت کرنے والوں نے آگے بڑھ کر یہ ثابت کر دیا کہ انسانیت زندہ ہے۔اس دنیا میں دردِدل رکھنے والے اور انسانیت سے محبت کرنے ولوں کی کمی نہیں۔
یہ بہادر سپوٹرز سائے کی طرح اس تاریخی لانگ مارچ کے ہیروز کے سات رہے اور ہر قدم اُن کا سات دیا۔یہ جاننے کہ باوجود کے مارچرزکا سات دینے سے ان کے پورے خاندان کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اُن کو دھمکیاں بھی ملی اور مل رہی ہیں۔
ان سب باتوں کی پروا کیئے بغیر ان ہیروز کے سات ان کے مارچ میں شریک ہوئے۔ اُن کا خیال بھی رھکا۔اور منزل تک ان کے سات رہے ۔ بےشک پنجاب میں دردِ دل رکنے والو کٰی تعداد بہت کم تھی لیکن جتنی بھی تھی۔سب نے منزل تک ان کا سات دیا اور ان کی آوازکے سات آواز ملائی۔
بلوچ قوم ہمشہ ان لوگوں کی محبت اور سپورٹ کویاد رکھے گی۔
ان بہادر اور انسانیت دوست لوگوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔

اُن بہادر بلوچ students کی جُرت کو ہم کسے فراموش کر سکتے ہیں۔جو لاہور سے اسلام آباد تک اپنے بلوچ قوم کےان بہادروں کے سات سائے کی طرح رہے۔
ان بلوچ فرزندوں نے اس قول کو پورا کیا

چُکیں بلوچانی ما چُکیں ‌بلوچانی
ما کوپگیں ‌پِسّانی ، ما جامگیں ‌ماسانی ما پنجگیں ‌براتانی ، ما لجیں ‌گہارانی
چُکیں بلوچانی ما چُکیں ‌بلوچانی

آج ہمیں ان بلوچ فرزندوں پر فخر ہے ۔ ہم پوری بلوچ قوم بلوچستان کے ان بہادر بیٹوں کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنکو بلوچ اور تاریخ ہمشہ یا رھکے گی۔ان سب نے اس تاریخی لانگ مارچ کا سات دیے کر انسانیت سے محبت کا ثبوت دیا۔

BY
شیرین بلوچ

No comments:

Post a Comment